"اسلام عليكم باجي۔ وہ ميں نے آپ كو اس ليے زحمت دي كہ سارہ اميد سے ہے۔ اپ براے مہرباني كچھ وقت نكال كر اسے كچھ ضروري مشورے دے سكيں گي۔ وہ كچھ پوچھنا بھي چاہ رہي تحيں غالبا۔" اپنے كام كے شعبے كي وجہ سے يہ دوست احباب كے حلقے ميں ميرے ليےايك معمول ہے۔ ديني اور سماجي كاموں ميں جن بھائيوں سے تعلق رہتا ہے، جب ضرورت ہوتي ہے وہ اس بارے ميں بذات خود يا اہليہ كے ذريعے مشورہ ليتے رہتے ہيں۔
جب كبھي خواتين سے حمل اور اس سے متعلقہ مسائل كے بارے ميں بات چيت ہوتي ہے، يوں محسوس ہوتا ہے كہ زيادہ تر خواتين حمل كو ايك بيماري سزا يا انتہائي مشكل تصور كرتي ہيں۔ بس كسي طرح جلد سے جلد يہ ٩ ماہ كا عرصہ گزرے اور جان چھوٹے۔ عموما شروع كے دنوں ميں طبيعت بھي گري گري رھتي ہے۔ جي متلانا اور ابكائياں آنا، قے وغيرہ روزانہ كا معمول بھي بن سكتا ہے۔ منہ كا ذائقہ خراب، جسم ميں درد ، روز مرہ كي عادات ميں تبديلي۔ غرض ايسا بالكل ممكن ہے كہ زندگي ايك انتہائي رومانوي موڑ سے ايك دم انتہائي عذاب كي وادي ميں جاتي دكھائي دينے لگے۔ شوہر بھي بيگم صاحبہ كي روز روز كي 'نزاكتوں' سے اكتا جائيں۔ اور بيوي محسوس كرے كہ جو سپنوں كا راجہ تھا اب صرف ايك باجہ بن كے رہ گيا ہے! :)
يہ حالات عموما اس وقت پيش آتے ہيں جب يہ نعمت بڑي آساني سے شادي كے شروع ميں ہي بغير كسي تردد كے مل جاتي ہے۔ ليكن اس ساري صورت كا ايك سادہ اور آسان حل موجود ہے۔ وہ يہ كہ اس تمام صورت حال كو ايك دوسري نظر سے ديكھنا شروع كر ديں۔ مثلا "يہ كتنا اونچا مقام ہے۔ يہ كتني مقدس حيثيت ہے۔ تخليق كے اس عظيم كام ميں ميرے رب نے مجھے اپنا نائب بنايا ہے۔ مجھے اپنے سے كس قدر قريب كيا ہے۔ اس انتہائي اہم تخليق انسانيت كے ليے اس نے ميرے اس ناچيز جسم كا انتخاب كيا ہے۔ مجھے ساري انسانيت سے اس قدر اوپر اٹھا كر اپنے ساتھ اس اہم كام كي انجام دہي ميں شامل كيا ہے۔ يہ دن اس عظيم ترين اور حسين ترين ذات سے قريب تر ہونے كے ہيں۔ اپني ساري پريشانياں اور تكليفيں بھول كر ميں اس بات كي خوشياں منا رہي ہوں كہ مجھے 'ماں' جيسي عظيم ہستي كا درجہ ديا جا رہا ہے۔ ابھي سے ميرے بچے كي تربيت شروع ہو چكي ہے۔ ميں صبح سے شام تك جو كچھ كر رہي ہوں يہ كسي كي ذات اور شخصيت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ميري عبادات اور خدمات ہر ہر چيز ميرے خون كے ذريعے كسي اور كے خون ميں شامل ہو رہي ہيں- كيا ميں روتے دھوتے اور منہ بسورتے وقت گذار رہي ہوں يا بہادري اور محبت سے اس مشكل مگر حسين ذمہ داري كو نبھانے كي كوشش ميں ہوں-" دوا اور دعا كے سہارے يہي تكليف راحت بن سكتي ہے اگر سوچ كا دھارا درست ہو۔ نعمت كا احساس ہو۔ حقيقت كو پہچاننے والي دل كي نظر ہو۔ ان بھائيوں كو بھي ميرا يہي مشورہ ہوتا ہے كہ اس مشكل گھڑي كو ان سوچوں كے ساتھ اپنے ساتھي اور اپنے ليے راحت بنائيں- خود بھي يہ راز سمجھيں اور انہيں بھي سمجھائيں۔
جب كبھي خواتين سے حمل اور اس سے متعلقہ مسائل كے بارے ميں بات چيت ہوتي ہے، يوں محسوس ہوتا ہے كہ زيادہ تر خواتين حمل كو ايك بيماري سزا يا انتہائي مشكل تصور كرتي ہيں۔ بس كسي طرح جلد سے جلد يہ ٩ ماہ كا عرصہ گزرے اور جان چھوٹے۔ عموما شروع كے دنوں ميں طبيعت بھي گري گري رھتي ہے۔ جي متلانا اور ابكائياں آنا، قے وغيرہ روزانہ كا معمول بھي بن سكتا ہے۔ منہ كا ذائقہ خراب، جسم ميں درد ، روز مرہ كي عادات ميں تبديلي۔ غرض ايسا بالكل ممكن ہے كہ زندگي ايك انتہائي رومانوي موڑ سے ايك دم انتہائي عذاب كي وادي ميں جاتي دكھائي دينے لگے۔ شوہر بھي بيگم صاحبہ كي روز روز كي 'نزاكتوں' سے اكتا جائيں۔ اور بيوي محسوس كرے كہ جو سپنوں كا راجہ تھا اب صرف ايك باجہ بن كے رہ گيا ہے! :)
يہ حالات عموما اس وقت پيش آتے ہيں جب يہ نعمت بڑي آساني سے شادي كے شروع ميں ہي بغير كسي تردد كے مل جاتي ہے۔ ليكن اس ساري صورت كا ايك سادہ اور آسان حل موجود ہے۔ وہ يہ كہ اس تمام صورت حال كو ايك دوسري نظر سے ديكھنا شروع كر ديں۔ مثلا "يہ كتنا اونچا مقام ہے۔ يہ كتني مقدس حيثيت ہے۔ تخليق كے اس عظيم كام ميں ميرے رب نے مجھے اپنا نائب بنايا ہے۔ مجھے اپنے سے كس قدر قريب كيا ہے۔ اس انتہائي اہم تخليق انسانيت كے ليے اس نے ميرے اس ناچيز جسم كا انتخاب كيا ہے۔ مجھے ساري انسانيت سے اس قدر اوپر اٹھا كر اپنے ساتھ اس اہم كام كي انجام دہي ميں شامل كيا ہے۔ يہ دن اس عظيم ترين اور حسين ترين ذات سے قريب تر ہونے كے ہيں۔ اپني ساري پريشانياں اور تكليفيں بھول كر ميں اس بات كي خوشياں منا رہي ہوں كہ مجھے 'ماں' جيسي عظيم ہستي كا درجہ ديا جا رہا ہے۔ ابھي سے ميرے بچے كي تربيت شروع ہو چكي ہے۔ ميں صبح سے شام تك جو كچھ كر رہي ہوں يہ كسي كي ذات اور شخصيت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ميري عبادات اور خدمات ہر ہر چيز ميرے خون كے ذريعے كسي اور كے خون ميں شامل ہو رہي ہيں- كيا ميں روتے دھوتے اور منہ بسورتے وقت گذار رہي ہوں يا بہادري اور محبت سے اس مشكل مگر حسين ذمہ داري كو نبھانے كي كوشش ميں ہوں-" دوا اور دعا كے سہارے يہي تكليف راحت بن سكتي ہے اگر سوچ كا دھارا درست ہو۔ نعمت كا احساس ہو۔ حقيقت كو پہچاننے والي دل كي نظر ہو۔ ان بھائيوں كو بھي ميرا يہي مشورہ ہوتا ہے كہ اس مشكل گھڑي كو ان سوچوں كے ساتھ اپنے ساتھي اور اپنے ليے راحت بنائيں- خود بھي يہ راز سمجھيں اور انہيں بھي سمجھائيں۔